حزقی ایل 33

حزقی ایل اسرائیل کا پہرےدار ہے

1رب مجھ سے ہم کلام ہوا، 2”اے آدم زاد، اپنے ہم وطنوں کو یہ پیغام پہنچا دے،

’جب کبھی مَیں کسی ملک میں جنگ چھیڑتا ہوں تو اُس ملک کے باشندے اپنے مردوں میں سے ایک کو چن کر اپنا پہرے دار بنا لیتے ہیں۔ 3پہرے دار کی ذمہ داری یہ ہے کہ جوں ہی دشمن نظر آئے توں ہی نرسنگا بجا کر لوگوں کو آگاہ کرے۔ 4اُس وقت جو نرسنگے کی آواز سن کر پروا نہ کرے وہ خود ذمہ دار ٹھہرے گا اگر دشمن اُس پر حملہ کر کے اُسے قتل کرے۔ 5یہ اُس کا اپنا قصور ہو گا، کیونکہ اُس نے نرسنگے کی آواز سننے کے باوجود پروا نہ کی۔ لیکن اگر وہ پہرے دار کی خبر مان لے تو اپنی جان کو بچائے گا۔

6اب فرض کرو کہ پہرے دار دشمن کو دیکھے لیکن نہ نرسنگا بجائے، نہ لوگوں کو آگاہ کرے۔ اگر نتیجے میں کوئی قتل ہو جائے تو وہ اپنے گناہوں کے باعث ہی مر جائے گا۔ لیکن مَیں پہرے دار کو اُس کی موت کا ذمہ دار ٹھہراؤں گا۔‘

7اے آدم زاد، مَیں نے تجھے اسرائیلی قوم کی پہرہ داری کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ اِس لئے لازم ہے کہ جب بھی مَیں کچھ فرماؤں تو تُو میری سن کر اسرائیلیوں کو میری طرف سے آگاہ کرے۔ 8اگر مَیں کسی بےدین کو بتانا چاہوں، ’تُو یقیناً مرے گا‘ تو لازم ہے کہ تُو اُسے یہ سنا کر اُس کی غلط راہ سے آگاہ کرے۔ اگر تُو ایسا نہ کرے تو گو بےدین اپنے گناہوں کے باعث ہی مرے گا تاہم مَیں تجھے ہی اُس کی موت کا ذمہ دار ٹھہراؤں گا۔ 9لیکن اگر تُو اُسے اُس کی غلط راہ سے آگاہ کرے اور وہ نہ مانے تو وہ اپنے گناہوں کے باعث مرے گا، لیکن تُو نے اپنی جان کو بچایا ہو گا۔

توبہ کرو!

10اے آدم زاد، اسرائیلیوں کو بتا، تم آہیں بھر بھر کر کہتے ہو، ’ہائے ہم اپنے جرائم اور گناہوں کے باعث گل سڑ کر تباہ ہو رہے ہیں۔ ہم کس طرح جیتے رہیں؟‘ 11لیکن رب قادرِ مطلق فرماتا ہے، ’میری حیات کی قَسم، مَیں بےدین کی موت سے خوش نہیں ہوتا بلکہ مَیں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی غلط راہ سے ہٹ کر زندہ رہے۔ چنانچہ توبہ کرو! اپنی غلط راہوں کو ترک کر کے واپس آؤ! اے اسرائیلی قوم، کیا ضرورت ہے کہ تُو مر جائے؟‘

12اے آدم زاد، اپنے ہم وطنوں کو بتا،

’اگر راست باز غلط کام کرے تو یہ بات اُسے نہیں بچائے گی کہ پہلے راست باز تھا۔ اگر وہ گناہ کرے تو اُسے زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ اِس کے مقابلے میں اگر بےدین اپنی بےدینی سے توبہ کر کے واپس آئے تو یہ بات اُس کی تباہی کا باعث نہیں بنے گی کہ پہلے بےدین تھا۔‘ 13ہو سکتا ہے مَیں راست باز کو بتاؤں، ’تُو زندہ رہے گا۔‘ اگر وہ یہ سن کر سمجھنے لگے، ’میری راست بازی مجھے ہر صورت میں بچائے گی‘ اور نتیجے میں غلط کام کرے تو مَیں اُس کے تمام راست کاموں کا لحاظ نہیں کروں گا بلکہ اُس کے غلط کام کے باعث اُسے سزائے موت دوں گا۔ 14لیکن فرض کرو مَیں کسی بےدین آدمی کو بتاؤں، ’تُو یقیناً مرے گا۔‘ ہو سکتا ہے وہ یہ سن کر اپنے گناہ سے توبہ کر کے انصاف اور راست بازی کرنے لگے۔ 15وہ اپنے قرض دار کو وہ کچھ واپس کرے جو ضمانت کے طور پر ملا تھا، وہ چوری ہوئی چیزیں واپس کر دے، وہ زندگی بخش ہدایات کے مطابق زندگی گزارے، غرض وہ ہر بُرے کام سے گریز کرے۔ اِس صورت میں وہ مرے گا نہیں بلکہ زندہ ہی رہے گا۔ 16جو بھی گناہ اُس سے سرزد ہوئے تھے وہ مَیں یاد نہیں کروں گا۔ چونکہ اُس نے بعد میں وہ کچھ کیا جو منصفانہ اور راست تھا اِس لئے وہ یقیناً زندہ رہے گا۔

17تیرے ہم وطن اعتراض کرتے ہیں کہ رب کا سلوک صحیح نہیں ہے جبکہ اُن کا اپنا سلوک صحیح نہیں ہے۔ 18اگر راست باز اپنا راست چال چلن چھوڑ کر بدی کرنے لگے تو اُسے سزائے موت دی جائے گی۔ 19اِس کے مقابلے میں اگر بےدین اپنا بےدین چال چلن چھوڑ کر وہ کچھ کرنے لگے جو منصفانہ اور راست ہے تو وہ اِس بنا پر زندہ رہے گا۔

20اے اسرائیلیو، تم دعویٰ کرتے ہو کہ رب کا سلوک صحیح نہیں ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے! تمہاری عدالت کرتے وقت مَیں ہر ایک کے چال چلن کا خیال کروں گا۔“

یروشلم پر دشمن کے قبضے کی خبر

21یہویاکین بادشاہ کی جلاوطنی کے 12ویں سال میں ایک آدمی میرے پاس آیا۔ 10ویں مہینے کا پانچواں دن [a] 8 جنوری۔ تھا۔ یہ آدمی یروشلم سے بھاگ نکلا تھا۔ اُس نے کہا، ”یروشلم دشمن کے قبضے میں آ گیا ہے!“

22ایک دن پہلے رب کا ہاتھ شام کے وقت مجھ پر آیا تھا، اور اگلے دن جب یہ آدمی صبح کے وقت پہنچا تو رب نے میرے منہ کو کھول دیا، اور مَیں دوبارہ بول سکا۔

بچے ہوئے اسرائیلی اپنے آپ پر غلط اعتماد کرتے ہیں

23رب مجھ سے ہم کلام ہوا، 24”اے آدم زاد، ملکِ اسرائیل کے کھنڈرات میں رہنے والے لوگ کہہ رہے ہیں، ’گو ابراہیم صرف ایک آدمی تھا توبھی اُس نے پورے ملک پر قبضہ کیا۔ اُس کی نسبت ہم بہت ہیں، اِس لئے لازم ہے کہ ہمیں یہ ملک حاصل ہو۔‘ 25اُنہیں بتا،

’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ تم گوشت کھاتے ہو جس میں خون ہے، تمہارے ہاں بُت پرستی اور خوں ریزی عام ہے۔ تو پھر ملک کس طرح تمہیں حاصل ہو سکتا ہے؟ 26تم اپنی تلوار پر بھروسا رکھ کر قابلِ گھن حرکتیں کرتے ہو، حتیٰ کہ ہر ایک اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرتا ہے۔ تو پھر ملک کس طرح تمہیں حاصل ہو سکتا ہے؟‘

27اُنہیں بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ میری حیات کی قَسم، جو اسرائیل کے کھنڈرات میں رہتے ہیں وہ تلوار کی زد میں آ کر ہلاک ہو جائیں گے، جو بچ کر کھلے میدان میں جا بسے ہیں اُنہیں مَیں درندوں کو کھلا دوں گا، اور جنہوں نے پہاڑی قلعوں اور غاروں میں پناہ لی ہے وہ مہلک بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ 28مَیں ملک کو ویران و سنسان کر دوں گا۔ جس طاقت پر وہ فخر کرتے ہیں وہ جاتی رہے گی۔ اسرائیل کا پہاڑی علاقہ بھی اِتنا تباہ ہو جائے گا کہ لوگ اُس میں سے گزرنے سے گریز کریں گے۔ 29پھر جب مَیں ملک کو اُن کی مکروہ حرکتوں کے باعث ویران و سنسان کر دوں گا تب وہ جان لیں گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔‘

جلاوطن اسرائیلیوں کی بےپروائی

30اے آدم زاد، تیرے ہم وطن اپنے گھروں کی دیواروں اور دروازوں کے پاس کھڑے ہو کر تیرا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’آؤ، ہم نبی کے پاس جا کر وہ پیغام سنیں جو رب کی طرف سے آیا ہے۔‘ 31لیکن گو اِن لوگوں کے ہجوم آ کر تیرے پیغامات سننے کے لئے تیرے سامنے بیٹھ جاتے ہیں توبھی وہ اُن پر عمل نہیں کرتے۔ کیونکہ اُن کی زبان پر عشق کے ہی گیت ہیں۔ اُن ہی پر وہ عمل کرتے ہیں، جبکہ اُن کا دل ناروا نفع کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ 32اصل میں وہ تیری باتیں یوں سنتے ہیں جس طرح کسی گلوکار کے گیت جو مہارت سے ساز بجا کر سُریلی آواز سے عشق کے گیت گائے۔ گو وہ تیری باتیں سن کر خوش ہو جاتے ہیں توبھی اُن پر عمل نہیں کرتے۔ 33لیکن یقیناً ایک دن آنے والا ہے جب وہ جان لیں گے کہ ہمارے درمیان نبی رہا ہے۔“

[a] 8 جنوری۔