حزقی ایل 31

مصری درخت دھڑام سے گر جائے گا

1یہویاکین بادشاہ کی جلاوطنی کے گیارھویں سال میں رب مجھ سے ہم کلام ہوا۔ تیسرے مہینے کا پہلا دن [a] 21 جون۔ تھا۔ اُس نے فرمایا، 2”اے آدم زاد، مصری بادشاہ فرعون اور اُس کی شان و شوکت سے کہہ،

’کون تجھ جیسا عظیم تھا؟ 3تُو سرو کا درخت، لبنان کا دیودار کا درخت تھا، جس کی خوب صورت اور گھنی شاخیں جنگل کو سایہ دیتی تھیں۔ وہ اِتنا بڑا تھا کہ اُس کی چوٹی بادلوں میں اوجھل تھی۔ 4پانی کی کثرت نے اُسے اِتنی ترقی دی، گہرے چشموں نے اُسے بڑا بنا دیا۔ اُس کی ندیاں تنے کے چاروں طرف بہتی تھیں اور پھر آگے جا کر کھیت کے باقی تمام درختوں کو بھی سیراب کرتی تھیں۔ 5چنانچہ وہ دیگر درختوں سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔ اُس کی شاخیں بڑھتی اور اُس کی ٹہنیاں لمبی ہوتی گئیں۔ وافر پانی کے باعث وہ خوب پھیلتا گیا۔ 6تمام پرندے اپنے گھونسلے اُس کی شاخوں میں بناتے تھے۔ اُس کی شاخوں کی آڑ میں جنگلی جانوروں کے بچے پیدا ہوتے، اُس کے سائے میں تمام عظیم قومیں بستی تھیں۔ 7چونکہ درخت کی جڑوں کو پانی کی کثرت ملتی تھی اِس لئے اُس کی لمبائی اور شاخیں قابلِ تعریف اور خوب صورت بن گئیں۔ 8باغِ خدا کے دیودار کے درخت اُس کے برابر نہیں تھے۔ نہ جونیپر کی ٹہنیاں، نہ چنار کی شاخیں اُس کی شاخوں کے برابر تھیں۔ باغِ خدا میں کوئی بھی درخت اُس کی خوب صورتی کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ 9مَیں نے خود اُسے متعدد ڈالیاں مہیا کر کے خوب صورت بنایا تھا۔ اللہ کے باغِ عدن کے تمام دیگر درخت اُس سے رشک کھاتے تھے۔

10لیکن اب رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ جب درخت اِتنا بڑا ہو گیا کہ اُس کی چوٹی بادلوں میں اوجھل ہو گئی تو وہ اپنے قد پر فخر کر کے مغرور ہو گیا۔

11یہ دیکھ کر مَیں نے اُسے اقوام کے سب سے بڑے حکمران کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اُس کی بےدینی کے مطابق اُس سے نپٹ لے۔ مَیں نے اُسے نکال دیا، 12تو اجنبی اقوام کے سب سے ظالم لوگوں نے اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین پر چھوڑ دیا۔ تب اُس کی شاخیں پہاڑوں پر اور تمام وادیوں میں گر گئیں، اُس کی ٹہنیاں ٹوٹ کر ملک کی تمام گھاٹیوں میں پڑی رہیں۔ دنیا کی تمام اقوام اُس کے سائے میں سے نکل کر وہاں سے چلی گئیں۔ 13تمام پرندے اُس کے کٹے ہوئے تنے پر بیٹھ گئے، تمام جنگلی جانور اُس کی سوکھی ہوئی شاخوں پر لیٹ گئے۔ 14یہ اِس لئے ہوا کہ آئندہ پانی کے کنارے پر لگا کوئی بھی درخت اِتنا بڑا نہ ہو کہ اُس کی چوٹی بادلوں میں اوجھل ہو جائے اور نتیجتاً وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے۔ کیونکہ سب کے لئے موت اور زمین کی گہرائیاں مقرر ہیں، سب کو پاتال میں اُتر کر مُردوں کے درمیان بسنا ہے۔

15رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ جس وقت یہ درخت پاتال میں اُتر گیا اُس دن مَیں نے گہرائیوں کے چشموں کو اُس پر ماتم کرنے دیا اور اُن کی ندیوں کو روک دیا تاکہ پانی اِتنی کثرت سے نہ بہے۔ اُس کی خاطر مَیں نے لبنان کو ماتمی لباس پہنائے۔ تب کھلے میدان کے تمام درخت مُرجھا گئے۔ 16وہ اِتنے دھڑام سے گر گیا جب مَیں نے اُسے پاتال میں اُن کے پاس اُتار دیا جو گڑھے میں اُتر چکے تھے کہ دیگر اقوام کو دھچکا لگا۔ لیکن باغِ عدن کے باقی تمام درختوں کو تسلی ملی۔ کیونکہ گو لبنان کے اِن چیدہ اور بہترین درختوں کو پانی کی کثرت ملتی رہی تھی تاہم یہ بھی پاتال میں اُتر گئے تھے۔ 17گو یہ بڑے درخت کی طاقت رہے تھے اور اقوام کے درمیان رہ کر اُس کے سائے میں اپنا گھر بنا لیا تھا توبھی یہ بڑے درخت کے ساتھ وہاں اُتر گئے جہاں مقتول اُن کے انتظار میں تھے۔

18اے مصر، عظمت اور شان کے لحاظ سے باغِ عدن کا کون سا درخت تیرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ لیکن تجھے باغِ عدن کے دیگر درختوں کے ساتھ زمین کی گہرائیوں میں اُتارا جائے گا۔ وہاں تُو نامختونوں اور مقتولوں کے درمیان پڑا رہے گا۔ رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ یہی فرعون اور اُس کی شان و شوکت کا انجام ہو گا‘۔“

[a] 21 جون۔