2۔تواریخ 25
یہوداہ کا بادشاہ اَمصیاہ
1اَمصیاہ 25 سال کی عمر میں بادشاہ بنا اور یروشلم میں اُس کی حکومت کا دورانیہ 29 سال تھا۔ اُس کی ماں یہوعدان یروشلم کی رہنے والی تھی۔ 2جو کچھ اَمصیاہ نے کیا وہ رب کو پسند تھا، لیکن وہ پورے دل سے رب کی پیروی نہیں کرتا تھا۔ 3جوں ہی اُس کے پاؤں مضبوطی سے جم گئے اُس نے اُن افسروں کو سزائے موت دی جنہوں نے باپ کو قتل کر دیا تھا۔ 4لیکن اُن کے بیٹوں کو اُس نے زندہ رہنے دیا اور یوں موسوی شریعت کے تابع رہا جس میں رب فرماتا ہے، ”والدین کو اُن کے بچوں کے جرائم کے سبب سے سزائے موت نہ دی جائے، نہ بچوں کو اُن کے والدین کے جرائم کے سبب سے۔ اگر کسی کو سزائے موت دینی ہو تو اُس گناہ کے سبب سے جو اُس نے خود کیا ہے۔“
ادوم سے جنگ
5اَمصیاہ نے یہوداہ اور بن یمین کے قبیلوں کے تمام مردوں کو بُلا کر اُنہیں خاندانوں کے مطابق ترتیب دیا۔ اُس نے ہزار ہزار اور سَو سَو فوجیوں پر افسر مقرر کئے۔ جتنے بھی مرد 20 یا اِس سے زائد سال کے تھے اُن سب کی بھرتی ہوئی۔ اِس طرح 3,00,000 فوجی جمع ہوئے۔ سب بڑی ڈھالوں اور نیزوں سے لیس تھے۔ 6اِس کے علاوہ اَمصیاہ نے اسرائیل کے 1,00,000 تجربہ کار فوجیوں کو اُجرت پر بھرتی کیا تاکہ وہ جنگ میں مدد کریں۔ اُنہیں اُس نے چاندی کے تقریباً 3,400 کلو گرام دیئے۔
7لیکن ایک مردِ خدا نے اَمصیاہ کے پاس آ کر اُسے سمجھایا، ”بادشاہ سلامت، لازم ہے کہ یہ اسرائیلی فوجی آپ کے ساتھ مل کر لڑنے کے لئے نہ نکلیں۔ کیونکہ رب اُن کے ساتھ نہیں ہے، وہ افرائیم کے کسی بھی رہنے والے کے ساتھ نہیں ہے۔ 8اگر آپ اُن کے ساتھ مل کر نکلیں تاکہ مضبوطی سے دشمن سے لڑیں تو اللہ آپ کو دشمن کے سامنے گرا دے گا۔ کیونکہ اللہ کو آپ کی مدد کرنے اور آپ کو گرانے کی قدرت حاصل ہے۔“ 9اَمصیاہ نے اعتراض کیا، ”لیکن مَیں اسرائیلیوں کو چاندی کے 3,400 کلو گرام ادا کر چکا ہوں۔ اِن پیسوں کا کیا بنے گا؟“ مردِ خدا نے جواب دیا، ”رب آپ کو اِس سے کہیں زیادہ عطا کر سکتا ہے۔“ 10چنانچہ اَمصیاہ نے افرائیم سے آئے ہوئے تمام فوجیوں کو فارغ کر کے واپس بھیج دیا، اور وہ یہوداہ سے بہت ناراض ہوئے۔ ہر ایک بڑے طیش میں اپنے اپنے گھر چلا گیا۔
11توبھی اَمصیاہ جرٲت کر کے جنگ کے لئے نکلا۔ اپنی فوج کو نمک کی وادی میں لے جا کر اُس نے ادومیوں پر فتح پائی۔ اُن کے 10,000 مرد میدانِ جنگ میں مارے گئے۔ 12دشمن کے مزید 10,000 آدمیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہوداہ کے فوجیوں نے قیدیوں کو ایک اونچی چٹان کی چوٹی پر لے جا کر نیچے گرا دیا۔ اِس طرح سب پاش پاش ہو کر ہلاک ہوئے۔
13اِتنے میں فارغ کئے گئے اسرائیلی فوجیوں نے سامریہ اور بیت حَورون کے بیچ میں واقع یہوداہ کے شہروں پر حملہ کیا تھا۔ لڑتے لڑتے اُنہوں نے 3,000 مردوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور بہت سا مال لُوٹ لیا تھا۔
اَمصیاہ کی بُت پرستی
14ادومیوں کو شکست دینے کے بعد اَمصیاہ سعیر کے باشندوں کے بُتوں کو لُوٹ کر اپنے گھر واپس لایا۔ وہاں اُس نے اُنہیں کھڑا کیا اور اُن کے سامنے اوندھے منہ جھک کر اُنہیں قربانیاں پیش کیں۔ 15یہ دیکھ کر رب اُس سے بہت ناراض ہوا۔ اُس نے ایک نبی کو اُس کے پاس بھیجا جس نے کہا، ”تُو اِن دیوتاؤں کی طرف کیوں رجوع کر رہا ہے؟ یہ تو اپنی قوم کو تجھ سے نجات نہ دلا سکے۔“ 16اَمصیاہ نے نبی کی بات کاٹ کر کہا، ”ہم نے کب سے تجھے بادشاہ کا مشیر بنا دیا ہے؟ خاموش، ورنہ تجھے مار دیا جائے گا۔“ نبی نے خاموش ہو کر اِتنا ہی کہا، ”مجھے معلوم ہے کہ اللہ نے آپ کو آپ کی اِن حرکتوں کی وجہ سے اور اِس لئے کہ آپ نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“
اَمصیاہ اسرائیل کے بادشاہ یوآس سے لڑتا ہے
17ایک دن یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ نے اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد یوآس بن یہوآخز بن یاہو کو پیغام بھیجا، ”آئیں، ہم ایک دوسرے کا مقابلہ کریں!“ 18لیکن اسرائیل کے بادشاہ یوآس نے جواب دیا، ”لبنان میں ایک کانٹےدار جھاڑی نے دیودار کے ایک درخت سے بات کی، ’میرے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ باندھو۔‘ لیکن اُسی وقت لبنان کے جنگلی جانوروں نے اُس کے اوپر سے گزر کر اُسے پاؤں تلے کچل ڈالا۔ 19ادوم پر فتح پانے کے سبب سے آپ کا دل مغرور ہو کر مزید شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہیں۔ آپ ایسی مصیبت کو کیوں دعوت دیتے ہیں جو آپ اور یہوداہ کی تباہی کا باعث بن جائے؟“ 20لیکن اَمصیاہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اللہ اُسے اور اُس کی قوم کو اسرائیلیوں کے حوالے کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اُنہوں نے ادومیوں کے دیوتاؤں کی طرف رجوع کیا تھا۔
21تب اسرائیل کا بادشاہ یوآس اپنی فوج لے کر یہوداہ پر چڑھ آیا۔ بیت شمس کے پاس اُس کا یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ 22اسرائیلی فوج نے یہوداہ کی فوج کو شکست دی، اور ہر ایک اپنے اپنے گھر بھاگ گیا۔ 23اسرائیل کے بادشاہ یوآس نے یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ بن یوآس بن اخزیاہ کو وہیں بیت شمس میں گرفتار کر لیا۔ پھر وہ اُسے یروشلم لایا اور شہر کی فصیل افرائیم نامی دروازے سے لے کر کونے کے دروازے تک گرا دی۔ اِس حصے کی لمبائی تقریباً 600 فٹ تھی۔ 24جتنا بھی سونا، چاندی اور قیمتی سامان رب کے گھر اور شاہی محل کے خزانوں میں تھا اُسے اُس نے پورے کا پورا چھین لیا۔ اُس وقت عوبید ادوم رب کے گھر کے خزانے سنبھالتا تھا۔ یوآس لُوٹا ہوا مال اور بعض یرغمالوں کو لے کر سامریہ واپس چلا گیا۔
اَمصیاہ کی موت
25اسرائیل کے بادشاہ یوآس بن یہوآخز کی موت کے بعد یہوداہ کا بادشاہ اَمصیاہ بن یوآس مزید 15 سال جیتا رہا۔ 26باقی جو کچھ اَمصیاہ کی حکومت کے دوران ہوا وہ شروع سے لے کر آخر تک ’شاہانِ اسرائیل و یہوداہ‘ کی کتاب میں درج ہے۔ 27جب سے وہ رب کی پیروی کرنے سے باز آیا اُس وقت سے لوگ یروشلم میں اُس کے خلاف سازش کرنے لگے۔ آخرکار اُس نے فرار ہو کر لکیس میں پناہ لی، لیکن سازش کرنے والوں نے اپنے لوگوں کو اُس کے پیچھے بھیجا، اور وہ وہاں اُسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 28اُس کی لاش گھوڑے پر اُٹھا کر یہوداہ کے شہر یروشلم لائی گئی جہاں اُسے خاندانی قبر میں دفنایا گیا۔